مندرجات کا رخ کریں

ہیکنگ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

جب کوئی شخص کسی کے سماجی میڈیا کھاتے کی یا یاھو یا کہیں اور جگہ سے آئی ڈی یا کوئی ویب گاہ یا پیج چوری کر لے یا اسی طرح کسی کے موبایل سے روپے پیسے یا تصویریں چوری کر لے یا کسی کے کمپیوٹر، لیاپ ٹاپ یا موبایل میں آکر ہر وہ چیز دیکھ لے جو جو اس چیز مالک یا استعمال کرنے والا کرتا ہو یا کوئی حکومت یا کسی بنک کی معلومات چراتا ہے یا سڑک پر لگے سکرین یا سگنل کو کنٹرول کر کے اپنی مرضی سے چلائے تو اس کوہیکنگ (انگریزی: Hacking) کہتے ہیں۔ ایک طرح سے یہ ہر اس چیز پر غیز مجاز طور پر قابو پانے کا جو انٹرنٹ سے تعلق رکھتی ہو-

ہیکر کلچر

[ترمیم]

ہیکر کلچر 1960 کی دہائی میں میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT's) Tech Model Railroad Club (TMRC)[14] اور MIT آرٹیفیشل انٹیلی جنس لیبارٹری کے آس پاس پرجوش کمپیوٹر پروگرامرز اور سسٹم ڈیزائنرز کی کمیونٹی سے اخذ کیا گیا ایک خیال ہے۔ 1970 کی دہائی کے آخر میں ہارڈ ویئر (جیسے ہومبریو کمپیوٹر کلب) اور 1980/1990 کی دہائی میں سافٹ ویئر (ویڈیو گیمز، سافٹ ویئر کریکنگ، ڈیموسسین) پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے یہ تصور شوق رکھنے والی گھریلو کمپیوٹنگ کمیونٹی تک پھیلا۔ بعد میں، اس میں آرٹ اور لائف ہیکنگ جیسی بہت سی نئی تعریفیں شامل ہوں گی۔

مثالیں

[ترمیم]
  • پیگاسس ایک ہیکنگ ویئر (یا اسپائی ویئر) ہے، جسے اسرائیلی ٹیکنالوجی کمپنی NSO Group نے بنایا، ایک عالمی غیر سرکاری تنظیم کے مطابق یہ فرم ایک ایسا سافٹ ویئر تیار کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا، جو ڈیجیٹل رازداری کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی بھی ڈیجیٹل آلات تک رسائی کے لیے خفیہ ادارہ اور لا انفورسمنٹ کی مدد کر سکے۔ اس جاسوس گروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ صرف سنجیدہ جرائم اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے گورنمنٹ ایجنسیز اس کا استعمال کرتی ہیں۔ ‘سٹیزن لیب’ کی 2018 کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ اسپائی ویئر مبینہ طور پر 45 ممالک میں استعمال کیا جا رہا ہے، جن میں بھارت، بحرین، قازقستان، میکسیکو، مراکش، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔[1]
  • سنہ 1999ء : ناسا اور امریکی وزارت دفاع کی ہیکنگ: ایک پندرہ سالہ لڑکے جوناتھن جیمز نے امریکی خلائی ایجنسی ناسا اور وزارت دفاع کے ڈیٹا کو ہیک کر لیا تھا۔ اس لڑکے نے وزارت دفاع کے کئی اہم رازوں کو چرانے کے علاوہ حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق معلومات بھی چرا لی تھیں۔ ان کے علاوہ اس نے تین ہزار ای میلوں کے یوزر نام اور پاس ورڈز بھی ڈھونڈ نکالے تھے۔ اُس وقت جوناتھن جیمز کو کم عمر ہونے کی بنیاد پر صرف چھ ماہ کی سزا سنائی گئی تھی۔ جوناتھن جیمز نے سن 2008ء میں اپنے خلاف ایک اور سائبر حملے کے الزام کے بعد خود کشی کر لی تھی۔[2]
  • برطانیہ کے علاقے آکسفورڈ سے تعلق رکھنے والے ایک 16 سال کے لڑکے پر حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ وہ لاپسس (Lapsus) نامی سائبر جرائم کے گروہ کے لیڈروں میں سے ایک ہے اور اس نے ہیکنگ کی مدد سے ایک کروڑ پاؤنڈ سے زیادہ رقم حاصل کر لی ہے۔[3]

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]